جو بات میں آج بیان کرنے جا رہی ہوں اس طرح کی تحریر آج سے پہلے نہیں لکھی۔ اس لیے اگر کوئی کمی کوتاہی ہو تو پیشگی معذرت قبول کیجیے۔ اپنی جانب سے پوری کوشش کروں گی کہ جیسے خود ڈر محسوس کیا تھا آپ کو بھی کرا سکوں۔ لیکن دیکھنے میں اور پڑھنے میں بہت فرق ہوتا ہے۔تو چلیں شروع کرتے ہیں۔
آج سے تقریباً دو ماہ اور چند دن پہلے یعنی کہ رمضان المبارک کے آخری عشرے میں میں نے ایک خوفناک منظر دیکھا ابھی بھی یاد کر رہی ہوں تو رونگٹے کھڑے ہو رہے ہیں۔روزہ تھا اور اشراق کی نماز ادا کرنے کے بعد میں لیٹ کر ذکر کرنے لگی۔ ہاتھ سینے پر باندھے ہوئے تھے پتا نہیں کب آنکھ لگ گئی۔ تقریباً گھنٹہ ڈیڑھ سونے کے بعد مجھے جاگ آئی اور واقعی میں جاگ رہی تھی یہ سب کوئی خواب بالکل نہیں تھا۔
بہت سکون سے میں اپنے اردگرد کا منظر دیکھ رہی تھی کہ اچانک جیسے مجھے کچھ آوازیں آنے لگیں۔ میں نے ان آوازوں پر زیادہ دھیان نہیں دیا لیکن پھر آہستہ آہستہ وہ آوازیں بڑھنے لگیں۔ میں نے آواز کے تعاقب میں نظریں گھمائیں۔ کاؤچ سے اگلی جانب جہاں کرٹلز تھے ایک عورت بالکل سیاہ لباس میں ہاتھ معافی کی صورت باندھے ہوئے کھڑی تھی۔اس کے دائیں اور بائیں دو مردے کھڑے تھے۔یعنی انھوں نے سفید کفن پہنا ہوا تھا جیسے کفن بندھا ہوتا ہے ایسے ہی تینوں جگہ سے بندھا ہوا تھا ہاں مگر ان کا چہرہ کفن سے باہر تھا۔میری آنکھوں میں ابھرتے سوال کو شاید اس نے پڑھ لیا تھا جب ہی میرے بولنے سے پہلے ہی کہنے لگی۔
میں یہاں تمہارے لیے آئی ہوں تمہیں طاقت دینے۔ ہمزاد سے ملوانے۔( ہمزاد شاید کوئی ہمارا اپنے اندر کا جن ہوتا ہے یہ پہلے کہیں پڑھا ہوا تھا)۔ایک کتاب اس کے سامنے کھل گئی جس میں بہت خوفناک تصویریں تھیں۔اس کے ناخن بہت لمبے تھے سرخ نچڑتے خون جیسے۔مجھے لگا شاید وہ میرے ساتھ ہے لیکن ان مردوں کو جب دیکھا تو میں ٹھٹھکی اور اب جیسے میں اپنے ساتھیوں کو آگاہ کرنا چاہ رہی تھی کہ یہ لوگ کوئی اور ہیں۔میں جن کو آگاہ کرنا چاہ رہی تھی ان کو دیکھا نہیں تھا لیکن ان کی موجودگی کا احساس تھا وہاں۔
یہ ہم میں سے نہیں ہیں۔میں با آواز بلند چیخی اور وہ ہی ذکر ذہن میں دہرانے لگی جو سونے سے پہلے کر رہی تھی لیکن کچھ یاد نہیں آ رہا تھا آواز حلق میں پھنس گئی۔ اس نے کتاب پھینکی اور ایک چمگادڑ بالکل اسی کے جیسی میرے اوپر سے گزر کر اس کے پاس آئی اب اس کی آنکھوں میں بھی خون اتر آیا تھا اور وہ سیاہ دھواں بن کر اڑی۔
سارے کرٹلز میری جانب بڑھنے لگے۔پنکھا چل رہا تھا تو اس کی اسپیڈ اور آواز دونوں بڑھ گئیں۔ہوا تو جیسے کمرے سے بالکل غائب ہو گئی تھی اور گھٹن تھی کہ بڑھتے جا رہی تھی۔
دھوئیں کو غائب نہیں ہونا چاہئیے یہ آواز مجھے سنائی دی تو میں نے اس کریہہ چہرے والی کا پیچھا کرنا چاہا لیکن اٹھنا تو دور کی بات مجھ سے ہلا بھی نہیں گیا۔ میرا منہ مغرب کی جانب تھا۔ میں بار بار کوشش کرنے لگی۔ مگر ایک انچ بھی اپنی جگہ سے نہیں ہل سکی۔وہ دھواں عورت اب مجھ سے تھوڑا دور دائیں جانب والے کرٹلز کے پاس جا کر پھر اپنی اصلی حالت میں آ گئی۔خود کے ہلنے جلنے سے بات نہیں بنی تو میں نے آنکھوں کو حرکت دی۔
اب وہ مجھے صحیح سے نظر آ رہی تھی۔ پنکھا بالکل میرے اوپر تھا اور لگ رہا تھا جیسے ابھی گر جائے گا۔ مجھے کہنے لگی اب تم نہیں بچو گی تمہارا بچنا نا ممکن ہے۔ یہ میرا عمل ہے۔ “شیطان کا عمل ہے”۔تو تم شیطان کی چیلی ہو۔
پھر میرے ذہن میں ذکر کے الفاظ آگے پیچھے اور ایک ایک کر کے چلنے لگے۔ اللہ لا الہ اللہ۔ الحی القیوم تک آ کر پھر سے سب بھول گیا۔ وہ جو خوفزدہ ہو رہی تھی قہقہہ لگانے لگی۔یا اللّٰہ وہ شیطانی قہقہہ پنکھے کی بادل کی گرج جیسی گھر گھر اور پردوں کا بالکل مجھے گھیر کر پیدا ہونے والی حبس۔
ہاں آیت الکرسی ہی تو پڑھ رہی تھی میں۔ ایک بار پھر سے کوشش کی۔ اب کی بار الفاظ خودبخود ادا ہونے لگے۔ جیسے ہی پہلا پھونک مارا وہ اندھیرے کی سیاہی چیخی اور دھواں ہو گئی۔کرٹلز پیچھے ہٹ گئے اور پنکھا بالکل اپنی پہلے والی اسپیڈ پر آ گیا۔ میں اٹھ کر بیٹھ گئی۔بھائی بالکل اسی وقت کمرے میں داخل ہوا۔ جو میں دیکھ چکی تھی وہ اس وقت میرے لیے اس قدر ہیبت ناک تھا کہ میں چند منٹ اس سے بات نہیں کر پائی لیکن پھر ہولے سے ریکوئسٹ کی کہ تھوڑی دیر میرے پاس بیٹھ جاؤ۔
وہ بیچارہ کالج کے لیے نکل رہا تھا کمرے سے شاید پرس لینے آیا تھا۔ مجھے کہنے لگا کیا ہوا ہے تاشی؟ اب وہ سب دوبارہ رپیٹ کرنا اس وقت میرے بس میں نہیں تھا۔ میں نے صرف اتنا کہا ڈر گئی ہوں تو کہتا اچھا کچھ نہیں ہوتا میں چھوٹے کو بھیجتا ہوں۔ چھوٹے صاحب ویسے من موجی سو اس نے امی کو بلا لیا۔امی جب آئے میں زاروقطار رو رہی تھی وہ تو گھبرا ہی گئیں۔ انھیں بھی وہی کہا جو بھائی کو کہا تھا۔
میرے ہونٹ خشک اور سانسیں اتھل پتھل تھیں۔نا تو انھیں یاد رہا اور نا مجھے کہ میرا روزہ ہے انھوں نے مجھے پانی لا کر دیا اور کہنے لگیں آیت الکرسی پڑھ کر پھونک مار کر پی لو۔میں نے آیت الکرسی کے ساتھ ساتھ قل اور باقی جو کچھ اس وقت سمجھ آ رہا تھا سب پڑھ کر پانی پر پھونک دیا۔ اس دوران بھی مجھے روزے کا خیال نہیں آیا بس ایک ہی بات تھی یا اللّٰہ مجھے یہ سب دوبارہ نہیں دیکھنا۔ اللہ تعالٰی یہ سب بہت برا تھا میں بہت ڈر گئی ہوں پلیز ہیلپ می آنسو تھے کہ رکنے کا نام نا لے رہے تھے۔
ایک ہی گھونٹ کے بعد مجھے روزہ یاد آیا تو بقیہ پانی رکھ دیا۔مگر پانی پینے سے جیسے میرے اندر کچھ ایسا چلا گیا تھا جس نے مجھے حوصلہ دیا ہو۔ میرے خوف کو اطمینان بخشا ہو۔جب بعد میں میں نے اس پر ریسرچ کی تو مجھے پتا چلا کہ اسے سلیپ پیرالائسز Sleep paralysis کہتے ہیں۔ اس میں انسان آدھی سوئی جاگی اور فالج کی سی کیفیت میں ہوتا ہے۔
بہت کچھ خوفناک دیکھتا ہے مگر خود کو حرکت نہیں دے پاتا۔ میں نہیں جانتی یہ سب واقعی کیا تھا کیونکہ آیت الکرسی کا اثر محسوس کیا تھا میں نے۔ ہاں ایک بات کا احساس بہت شدت سے ہوا تھا کہ اللّٰہ تعالیٰ ہمیں کبھی اکیلا نہیں چھوڑتے۔ میں نے جو بیان کیا وہ شاید آپ کے لیے کوئی بڑی بات نا ہو لیکن اس وقت میری حالت ایسی تھی کہ میں پورا گھنٹہ مسلسل روتی رہی اور اپنی جگہ سے اٹھ بھی نا پائی۔
جب بھی کرٹلز اور پنکھے کو دیکھتی تو خوف ہڈیوں میں سرائیت کرتا محسوس ہوتا۔ لیکن اللّٰہ تعالیٰ نے میری ہیلپ کی امی اور مجھے دونوں کو بھولا دیا میرے روزے کا۔ اور مجھے سکون ملنے لگا۔ تو دیکھیں جو اللّٰہ تعالیٰ اتنے پیارے پی کہ اتنی چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی ہمیں ہیلپ کرتے ہیں۔کیا وہ بڑے معاملات میں چھوڑ دیتے ہوں گے؟ نہیں ہرگز نہیں۔ ہاں ان کی حکمت ہے چاہے جلدی مدد پہنچائیں یا لیٹ۔ وہ ہر بات کو ہم سےبہترجاننےوالےہیں۔