۲۷ رجب
حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللّٰہ علیہ
آپ کا نامِ پاک : جنید
کنیت : ابوا لقاسم
القابات: سیدُ الطّائفہ ، لِسَانُ الْقَوم ، طاؤسُ الْعُلَما مشہور اَلقاب ہیں
ولادت: حضرت جنید بغدادی رَحمۃُ اللہ علیہ کی وِلادت مبارک تقریباً ۔218 ہجری میں بغداد شریف میں ہوئی
فضائل
حضرت ابو عبّاس عطّار رَحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اِمَامُنَافِی ہَذَا الْعِلْمِ وَ مَرْجِعُنَا الْمُقْتَدیٰ بِہِ الْجُنَیْد یعنی عِلْمِ تَصَوُّف میں ہمارے امام اور پیشوا حضرت جنید بغدادی رَحمۃُ اللہ علیہ ہیں۔
حضرت ابوجعفر حَدَّاد رَحمۃُ اللہ علیہ فرمایاکرتے تھے : اگر عقل مرد ہوتی تو حضرت جنید بغدادی رَحمۃُ اللہ علیہ کی صُورت پر ہوتی
۔
خاندانی پس منظر
حضرت جنید بغدادی رَحمۃُ اللہ علیہ مشہور ولئ کامِل حضرت سِرِّی سقطی رَحمۃُ اللہ علیہ کے بھانجے ( Nephew ) بھی ہیں اور مُرِیْدِ کامِل بھی ہیں۔
آپ کو بچپن ہی سے اپنے ماموں جان حضرت سِرِّی سقطی رَحمۃُ اللہ علیہ کی بابرکت صحبت حاصِل رہی ، جس کی برکت سے آپ ابتدا ہی سے نیک پرہیز گار ، عبادت گزار تھے۔
حضرت جنیدِ بغدادی رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ اور نیکیوں کا شوق
منقول ہے:حضرت جنیدِ بغدادی رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ پہلے پہل آئینوں(Mirrors)کی تجارت کرتے تھے،اس دوران بھی آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ کا معمول تھا کہ جب اپنی دُکان پر تشریف لے جاتے تو پردہ گِرا کر چارسو(400)رکعت نمازِنَفْل ادا فرماتے،ایک مُدّت تک آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ نے اس عمل کو جاری رکھا۔پھر آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ دُکان چھوڑ کر حضرت سِرّی سَقَطی رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور ان کے مکان کے ایک چھوٹے سے کمرے میں عبادت میں مصروف ہوگئے۔اس طرح آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ نے چالیس(40)سال کالمبا عرصہ گزارا۔تیس(30)سال تک آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ کا معمول تھا کہ عشاء کی نماز کے بعد کھڑے ہو کر صبح تک اللہ،اللہ کہا کرتے اور اسی وُضو سے صبح کی نماز ادا کرتے۔ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ خود فرماتے ہیں: “بیس(20)سال تک مجھ سےتکبیرِ اُولیٰ فوت نہیں ہوئی”
تذکرۃ الْاَوْلیا میں ہے : حضرت جنید بغدادی رَحمۃُ اللہ علیہ صائِمُ الدَّہر تھے یعنی سارا سال نفل روزے رکھا کرتے تھے ، البتہ کوئی مہمان آ جاتا تو روزہ نہ رکھتے اور فرمایا کرتے : مسلمان بھائیوں کی مُوافَقَت بھی روزے سے کم نہیں ( یعنی مہمان کی مہمان نوازی کے لئے روزہ چھوڑ کر ، اس کے ساتھ کھانا کھاؤں گا ، اس سے مہمان کا دِل خوش ہو گا اور مہمان کا دِل خوش کرنا بھی بڑی عِبَادت ہے
کمال درجے کے عالم
حضرت جنید بغدادی رَحمۃُ اللہ علیہ بہت بڑے عالِمِ دِین تھے ، لوگ آپ کی خِدْمت میں عرض کیا کرتے : اے جنید ! آپ ہمیں وَعْظ و نصیحت کیا کیجئے ! آپ فرماتے : اپنے پِیرِ کامِل حضرت سِرِّی سقطی رَحمۃُ اللہ علیہ کے ہوتے ہوئے میں وعظ و نصیحت نہیں کر سکتا۔پھر ایک دِن حضرت سِرِّی سقطی رَحمۃُ اللہ علیہ نے خُود آپ کو وعظ و نصیحت کرنے ( یعنی درس و بیان کرنے ) کا حکم فرمایا ، اس پر بھی آپ نے عرض کیا : عالی جاہ ! آپ کے ہوتے ہوئے میں وعظ کہوں ، مجھے اچھا نہیں لگتا۔
اسی رات جب آپ سوئے تو قسمت جاگی ، نُور والے آقا ، مکی مدنی مصطفےٰ صلی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم چاند سا چہرہ چمکاتے خواب میں تشریف لے آئے اور فرمایا : جنید ! لوگوں کو کچھ سُنایا کر ! تمہارے بیان کے ذریعے اللہ پاک ایک عالَم کو نجات بخشے گا۔
صبح جب بیدار ہوئے تو دِل میں وسوسہ آیا کہ شاید میں اپنے پِیرِ صاحِب سے بھی بلند
رُتبہ ہو گیا ہوں کہ مجھے پیارے نبی ، رسولِ ہاشمی صلی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم نے خُود بیان کرنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے ، ابھی اسی خیال میں تھے کہ پِیرِ کامِل حضرت سِرِّی سقطی رَحمۃُ اللہ علیہ کا پیغام پہنچا ، انہوں نے فرمایا : جنید ! بغداد والوں نے تمہیں وعظ کا کہا ، تم نے انکار کر دیا ، ہم نے کہا ، تم نے بات نہ مانی ، اب تو اللہ کے پیارے نبی ، رسولِ ہاشمی صلی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم نے حکم دیا ہے ، اب حکم بجا لاؤ !
یہ پیغام سنتے ہی آپ کے دِل سے وسوسہ جاتا رہا ، آپ نے اپنے پِیر صاحِب کی خِدْمت میں عرض کیا : عالی جاہ ! آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ مجھے خواب میں رسولِ رحمت ، شفیعِ اُمّت صلی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم کی زیارت ہوئی ہے ؟ فرمایا : مجھے رات خواب میں اللہ تبارک وتعالی کا دیدار نصیب ہوا ، مجھے اس پاک ذات نے یہ خبر ارشاد فرمائی۔
یہ سُن کر حضرت جنید بغدادی رَحمۃُ اللہ علیہ نےفوراً اپنی غلطی سے توبہ کی اور عرض کیا : میں جان گیا ہوں کہ آپ کا درجہ ہر حال میں میرے درجے سے بلند ہے ، آپ یقیناً میرے ہر راز ( Secret ) سے واقِف ہیں مگر میں آپ کے منصب سے بے خبر ہوں۔
کرامت
“کافر کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گیا”
یمن کا رہنے والا ایک کافِر تھا ، اس نے کہیں سے آخری نبی ، رسولِ ہاشمی صلی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم کی یہ حدیثِ پاک سُن لی کہ آپ صلی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا : اِتَّقُوْا فِرَاسَۃَ الْمُؤْمِنِ فَاِنَّہٗ یَنْظُرُ بِنُوْرِ اللہ یعنی مسلمان کی فراست سے ڈرو کہ بےشک وہ اللہ پاک کے نُور سے دیکھتا ہے۔
اُس کافر کو شوق ہوا کہ اس بات کو آزمائے ، چنانچہ اس نے اسلامی لباس پہنا ، عمامہ باندھا اور پُورا مسلمانوں والا حُلیہ اپنا کر ایک ایک کر کے مختلف مَشَائِخِ کرام ( یعنی بڑے عُلَما اور اَوْلیائے کرام ) کی خِدْمت میں حاضِر ہونا شروع کیا ، جن کی خِدْمت میں بھی پہنچتا ، ان سے اسی حدیث شریف کا مطلب پوچھتا کہ رسولِ اکرم ، نورِ مُجَسَّم صلی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا : مُؤمِن کی فراست سے بچو کہ وہ اللہ پاک کے نُور سے دیکھتا ہے ، اس حدیث شریف کا کیا مطلب ہے ؟ وہ عالِم صاحِب یا ولیُ اللہ حدیث شریف کا معنیٰ بتا دیتے۔ یُونہی کرتے کرتے
ایک دِن سَیِّدُ الطَّائفہ ( یعنی اَوْلیا کے سردار ) حضرت جنید بغدادی رَحمۃُ اللہ علیہ کی خِدْمت میں حاضِر ہو گیا ، مجمع لگا ہوا تھا ، حضرت جنید بغدادی رَحمۃُ اللہ علیہ بیان فرما رہے تھے ، اس نے دورانِ بیان ہی پوچھا : عالی جاہ ! رسولِ اکرم ، نورِ مُجَسَّم صلی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا : اِتَّقُوْا فِرَاسَۃَ الْمُؤْمِنِ فَاِنَّہٗ یَنْظُرُ بِنُوْرِ اللہ ( مُؤمِن کی فراست سے بچو کہ بےشک وہ اللہ پاک کے نُور سے دیکھتا ہے اس حدیثِ پاک کا مطلب کیا ہے ؟
حضرت جنید بغدادی رَحمۃُ اللہ علیہا پنی مُؤْمِنَانه فراست سے پہچان گئے اور فرمایا : اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ تُو کفر چھوڑ اور اسلام قبول کر لے۔
بَس اتنا سننا تھا کہ وہ بے تاب ہو گیا اور فوراً کلمہ پڑھ کر دائرۂ اسلام میں داخِل ہو گیا۔
عارِفْ باللہ ( یعنی اللہ پاک کی پہچان رکھنے والے بلند رُتبہ ولئ کامِل ) ، مشہور عاشِقِ رسول حضرت عبدالرحمٰن جامی رَحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اس واقعہ میں حضرت جنید بغدادی رَحمۃُ اللہ علیہ کی 2 کرامتیں ہیں : ( 1 ) : ایک تو یہ کہ وہ شخص تھا کافِر مگر اِسْلامی حلیے ( Islamic Attire ) میں آیا تھا مگر آپ نے نُورِ فراست سے پہچان لیا کہ یہ مسلمان نہیں بلکہ کافِر ہے ( 2 ) : دوسری کرامت یہ کہ آپ نے اپنی نگاہِ وِلایت سے جان لیا کہ اس کافِر کے اسلام قبول کرنے کا یہی وقت ہے۔
ایک مرتبہ حضرت جنید بغدادی رَحمۃُ اللہ علیہ کی آنکھوں میں کچھ تکلیف ہوئی ، ایک کافِر طبیب نے آپ کی آنکھوں کا معاینہ کیا اور ہدایت کی کہ آنکھوں کو پانی نہ لگنے دیا جائے۔
آنکھوں کو پانی نہ لگے ، یہ بھلا کیسے ہو سکتا ہے ، وُضُو کریں گے تو آنکھوں کو تو پانی لگے گا اور ایک کافِر کے کہنے پر وُضُو چھوڑنے کی اجازت بھی نہیں ہو سکتی ، لہٰذا حضرت جنید بغدادی رَحمۃُ اللہ علیہ نے کافِر طبیب کی بات پر بالکل تَوَجُّہ نہ دی ، وُضُو کیا ، نمازِ عشا ادا فرمائی اور سو گئے ، صبح جب بیدار ہوئے تو آنکھیں بالکل ٹھیک ہو چکی تھیں ، اس وقت غیب سے آواز آئی : اے جنید ! تم نے عِبَادت کے لئے اپنی آنکھوں کی پروا نہ کی ، لہٰذا ہم نے تمہاری تکلیف دُور کر دی۔
جب اس کافِر طبیب کو خبر ملی کہ آپ کی آنکھیں بالکل ٹھیک ہو گئی ہیں تو اس نے حیرانی سے پوچھا : ایک ہی رات میں آنکھیں کیسے ٹھیک ہو گئیں ؟ فرمایا : وُضُو کرنے سے۔ اس پر کافِرطبیب بولا : اَصْل میں طبیب ( Doctor ) آپ ہیں اور میں مریض ( Patient ) ہوں ، اب میرا عِلاج فرمائیے اور کلمہ پڑھا کر مسلمان کر دیجئے
حضرت جنید بغدادی
رَحمۃُ اللہ علیہ کی نصیحتیں
“دَرْوَیش کو صبر کی تلقین”
ایک مرتبہ حضرت جنید بغدادی رَحمۃُ اللہ علیہ کسی دَرْوَیش کی عِیادت کے لئے تشریف لے گئے ، اس وقت وہ بیماری کے سبب رو رہے تھے ، حضرت جنید بغدادی رَحمۃُ اللہ علیہ نے اسے نصیحت کرتے ہوئے فرمایا : کس کی عطا کردہ اَذِیَّت پر رو رہے ہو ؟ اور کس سے اس کی شکایت ( Complaint ) کرنا چاہتے ہو ؟ آپ کی یہ حکمت بھری بات سُن کر وہ دَرْوَیش چپ ہو گیا۔
سُبْحٰنَ اللہ ! کیسی پیاری نصیحت ( Advice ) ہے… ! ! ہمیں بھی اس نصیحت پر عَمَل کرنا چاہئے ، اللہ نہ کرے ، اگر کبھی مشکل ، پریشانی ، تنگدستی بیماری آئے تو رونا دھونا مچانے کی بجائے ذرا یہ غور فرمائیے کہ یہ مشکل ، پریشانی وغیرہ کس کے حکم سے آئی ہے ؟ یقیناً ہمارا اِیْمان ہے : وَالْقَدْرِ خَیْرِہٖ وَشَرِّہٖ مِنَ اللہ تَعَالیٰ ہر اچھی بُری تقدیر اللہ پاک ہی کی طرف سے ہےیعنی اگر اللہ کریم کا یہی حکم ہے کہ مجھے کوئی دُکھ پہنچے تو میں اس کی رضامیں راضِی ہوں ، مجھے سُکھ کی ضرورت ہی کیا ہے۔
بلکہ حق تو یہ ہے کہ جو اللہ پاک کی طرف سے ہے ، وہ سُکھ ہی سُکھ ہے ، دُکھ تو ہے ہی نہیں۔
جنید بغدادی
رَحمۃُ اللہ علیہ کی شیطان سے ملاقات
حضرت جنید بغدادی رَحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ایک مرتبہ میرے دِل میں ابلیس کو دیکھنے کی خواہش پیدا ہوئی ، چنانچہ ایک دِن میں مسجد کے دروازے پر تھا ، مجھے دُور سے ایک بوڑھا آتا دکھائی دیا ، اسے دیکھتے ہی میں نے اپنے دِل میں وحشت ( Terror ) محسوس کی ، جب وہ قریب آیا تو میں نے پوچھا : تُو کون ہے ؟ بولا : وہی ہوں جسے دیکھنے کی آپ نے خواہش کی تھی۔میں سمجھ گیا کہ یہ ابلیس ہے ، میں نے اسے ڈانٹتے ہوئے کہا : اے خبیث ! تجھے حضرت آدم علیہ السَّلَام کو سجدہ کرنے سے کس چیز نے روکا ؟ ابلیس بولا : اے جنید ! آپ کیا چاہتے ہیں میں غیرِ خُدا کو سجدہ کر لیتا۔ حضرت جنید بغدادی رَحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ابلیس کی یہ بات سُن کر میں حیران رہ گیا ، قریب تھا کہ اس کی بات میرے دِل پر اَثَر کر جاتی ، اسی وقت مجھے الہام ہوا ( یعنی میرے دِل میں یہ بات ڈال دی گئی ) کہ اے جنید ! اسے کہہ دو ! کَذَبْتَ لَوْ کُنْتَ عَبْدًا مَامُوْرًا مَا خَرَجْتَ عَنْ اَمْرِہ یعنی اے خبیث ! تُو جھوٹا ہے ، اگر تو واقعی اپنے مالِک ( یعنی اللہ کریم ) کا بندہ ہوتا تو ہرگز اس کے حکم کی نافرمانی ( Denial ) نہ کرتا۔ شیطان آپ کے دِل کی بات پہچان گیا اور فوراً ہی وہاں سے دوڑ گیا۔
وصال مبارک
حضرت ابوبَکْرعطَّاررَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ فرماتے ہیں:جب حضرت جُنید بغدادی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ کا انتقال ہوا تو میں اور میرے کچھ دِینی دوست وہاں مَوجُود تھے ، ہم نے دیکھا کہ اِنتقال سے کچھ دیر پہلے کمزوری کی وجہ سے آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ بیٹھ کر نماز پڑھ رہے تھے۔آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ کے دونوں پاؤں سُوجے ہوئے تھے۔جب رُکوع وسُجود کرتے تو ایک پاؤں موڑ لیتے جس کی وجہ سے بہت تکلیف اور پریشانی ہوتی۔ دوستوں نے یہ حالت دیکھی تو کہا:اے ابُوقاسم!یہ کیا ہے؟آپ کے پاؤں سُوجے ہوئے کیوں ہیں؟ فرمایا:’’اللہُ اَکْبَر،یہ تو نعمت ہے۔‘‘حضرت ابُو محمدحَرِیری رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہ نے کہا:’’اے ابو قاسم! اگر آپ لیٹ جائیں تو کیا حرج ہے؟‘‘فرمایا: ’’ابھی وَقْت ہے، جس میں کچھ نیکیاں کر لی جائیں،اس کے بعد کہاں موقع ملے گا۔‘‘پھر اللہُ اَکْبَر کہا اور آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ کا وصال ہوگیا ۔ یہ بھی منقول ہے کہ جب آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ سے کہا گیا:حُضُور!اپنی جان پر کچھ نرمی کیجئے ، تو فرمایا : اب میرا نامۂ اعمال بند کیا جارہا ہے ، اس وَقْت نیک اعمال کا مجھ سے زِیادہ کون حاجت مندہوگا۔(عیون الحکایات،ص۲۵۰
“نمازِ تہجد نے خوب فائدہ پہنچایا”
حضرت جنید بغدادی رَحمۃُ اللہ علیہ کو بعد ِوصال کسی نے خواب میں دیکھا تو پوچھا : اے ابو القاسِم ! ( بعد ِوفات آپ کے ساتھ کیا معاملہ ہوا ؟ ) کچھ ارشاد فرمائیے۔ فرمایا : علمی اَبحاث اور علمی نِکات کی باریکیاں کام نہ آئیں مگر رات کی تنہائی میں ادا کی جانے والی نَماز ( تہجّد ) نے خوب فائدہ پہنچایا۔
حضرت جنید بغدادی رَحمۃُ اللہ علیہ کا وِصال شریف 27 رَجَبُ الْمُرَجَّب 297 ھ یا 298 ھ کو ہوا آپ رَحمۃُ اللہ علیہ کا مزار ( Shrine ) بھی بغداد شریف میں شُونِیزِیہ کے علاقے میں واقع ہے۔