اعلیٰ تعلیم یافتہ مائیں
ہماری مائیں “قرآن پڑھی مائیں تھیں، جو سکول کالج نہیں گئی تھیں، قرآن بھی کسی مسجد کے ملاں جی سے نہیں پڑھا تھا، گھر ہی کی کسی بڑی بوڑھی سے “قرآن یافتہ” اور تہذیب یافتہ اور تربیت یافتہ ہوتی تھیں۔۔۔ جن کو صبر کے اصلی مفہوم کا علم تھا، جن کو اپنے خاوند کی محبت میں اس سے ڈرنا بھی آتا تھا اور خدمت کرنی بھی۔
عام گھروں کے “ابا جی” کا جب گھر آنے کا وقت ہوتا تو ہر گھر میں اک افراتفری ہوتی۔ بچے پتنگ اڑاتے چھت سے نیچے اتر آتے، گلیوں میں کھیلتے بچے کھیل چھوڑ کر گھروں میں جا دبکتے۔ ماوؑں کے لئے یہ وقت بڑا بھاری ہوتا تھا۔ تیاریاں ایسے ہو رہی ہوتیں جیسے کوئی مہمان پہلی بار کسی کے ہاں آ رہا ہو ۔۔۔اُلٹے توّے کی تازہ روٹی ، تازہ سالن، اچار، چٹنی، مربہ، مکھن، سلاد سب ساتھ ساتھ ۔۔۔ روٹیوں کا پٙرنا دُھلا ہوا نرم، چھابی صاف ستھری ۔۔۔ کھانے سے پہلے خاوند کے ہاتھ دھلوانا۔ کھانے شروع ہونے سے پہلے پانی دسترخوان پر رکھنا، بہترین بوٹیاں ابا جی کے لئے ۔۔۔ پھل کاٹ کر، سجا کر رکابی میں رکھنا ۔۔۔ میٹھا، گُڑ کا زردہ ۔۔۔ اور اس سب کے دوران احتراماً اپنے میاں سے آنکھ نہ ملانا ۔۔۔
اس زمانے میں میاں بیوی کا مہمانوں کی موجودگی میں سرِعام ایک ہی چارپائی پر بیٹھنا بھی بےحیائی سمجھا جاتا تھا ۔۔۔ میاں کی پسند ناپسند کا خیال رکھنا، کبھی بھولے سے بھی میاں کا نام نہ لینا بلکہ “بھولے دے ابا” “پروین دی ماں” جیسے الفاظ ایک دوجے کو بلانے کے لئے استعمال کئے جاتے تھے ۔۔۔ کبھی غیر موجودگی میں بھی واحد کا صیغہ استعمال نہ کرنا ۔۔۔ میاں کے صابن تولیہ کا خیال رکھنا۔ موسمی پھلوں کا اچار ڈالنا ۔۔۔ یہ وہ “امیاں” ہوا کرتی تھیں جن کو بچوں نے کبھی کھانا کھاتے نہیں دیکھا تھا، جانے وہ کب کھانا کھاتی تھیں۔
پھوپھیاں خالائیں سب ایک سی ہی لگا کرتی تھیں۔ ان کو محرم نا محرم کا بھی خوب پتہ تھا مگر گرمی بھلے پچاس ڈگری ہو چادر میں ہی لپٹی رہتی تھیں ، بچوں نے بھی کبھی ان کو ننگے سر نہ دیکھا تھا۔ ان بچوں نے کبھی اپنی ماں کو سوتے نہ دیکھا ۔۔۔ ان کے جاگنے سے پہلے جاگتیں ۔ ان کے سونے کے بعد سوتیں ۔۔۔
پنجیری کی جگہ دیسی گھی کی پنیاں اس لئے ایجاد ہوئیں تھیں کہ بچے ہاسٹلز میں رہنے لگے تھے ۔۔۔ ہاسٹل میں جس مرضی کمرے میں چلے جائیں ماوؑں کی سوغاتیں ہی سوغاتیں۔ السی کے لڈو, پتیسے۔ پنیاں ۔۔۔
وہ “قرآن پڑھی” امیوں کا آخری دور تھا ۔ تاریخ نے اولاد آدم کی ہزاروں لاکھوں سالوں کی تہذیب اور تربیت اُن انپڑھ عورتوں کی جھولی میں ڈال دی تھی ۔۔۔ جن کی وفا آسمانی دلیل کی مانند تھی ، جن کی حیاء زینبؓ کی چادر کا اثر اوڑھے رکھتی تھی ۔۔۔ جن کی خدمت ۔۔۔ سب سسرالیوں کا مشترکہ حق ہوا کرتی تھی ۔۔۔
وفا کی، حیا کی، تہذیب کی آخری علامت ایسے رخصت ہوئی کہ کسی کے پیپرز چل رہے تھے تو کسی بچے کے پریکٹیکلز کا رولا تھا ۔۔۔ کسی نے اسائنمنٹ جمع کروانی تھی تو کسی کا کلاس ٹور تھا ۔۔۔
کسی کو ٹھیک سے پتہ بھی نہ چل سکا کہ لاکھوں سال کی تہذیب ہمارے ہاتھوں خاموشی سے قبر میں اتر گئی ۔۔۔
اور پھر ہم ٹنڈ منڈ میکڈولنڈز تہذیب میں ڈھل گئے ۔ فاسٹ فوڈ کے فیور میں مبتلا ہو گئے۔ مغرب کے پراپیگنڈہ کے زیر اثر اپنی ہی بیگم کو پارٹنر بنا لیا ۔۔۔ گاڑی کا دوسرا پہیہ سمجھ لیا یہ جانے بغیر کے دو پہیئے تو سائیکل کے ہوتے ہیں اور ان میں سے بھی ایک ڈائریکشن وہیل ہوتا ہے اور دوسرا ڈرائیونگ وہیل ۔۔۔
“ماما” ان دنوں ماں کو نہیں ماں کے بھائی کو کہا جاتا تھا۔ “امی جی” بہت ہی پیار کا لفظ تھا شاید وہ بھی ان امیوں کے ساتھ ہی رخصت ہو گیا۔۔۔
اللہ ان امیوں کو جنت کے اچھے محلوں میں سنبھال لے اور ہمیں معاف فرما دے ۔۔۔ ہم اس امرت دھارے سے محروم ہو کر کہیں کے نہیں رہے۔۔