ہم سب یہاں قید ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!
“اگر دنیا کے تمام سائنس دان اور انجنیرز ملکر ایک تیز ترین “خلای جہاز” بنا دیں اور وہ تقریبا پانچ لاکھ سال تک بغیر رُکے مسلسل سفر کرتا رہے، پھر بھی وہ “dot” سے باہر نہیں نکل پاۓ گا۔ چاہے اس جہاز کی رفتار ایک لاکھ کلو میٹر فی سیکنڈ ہی کیوں نا ہوں۔ بلکہ “علم فلکیات” میں اس طرح کا کوئی “سوچ” سوچنا بھی “بے وقوفی” ہے۔ کیونکہ یہ تقربیا ناممکن ہے۔
یہ تصویر ہمارے یونیورس کا ایک خاکہ ہے۔ اس تصویر میں ہر dot کہکشاں، کلسٹرز اور سپر کلسٹرز ہے۔ اس گول داٸرے میں 400 بلین ستارے موجود ہیں۔جن میں ایک ہماری اپنی زمین بھی ہے۔ یہ سٹریکچیر کتنا بڑا ہے۔۔۔۔؟ یہ اتنا بڑا ہے، کہ اس کے ایک side کی روشنی دوسرے side تک نہیں پہنچ پاتی ۔ جہاز تو دور کی بات ہے۔ اگر اس “سٹریکچیر” کے ایک کنارے پر واقع کسی ستارے سے پیدا ہونے والی روشنی اِس وقت سفر کرنا شروع کردے، تو اس کو اس “سٹریکچیر” کے دوسرے سرے تک پہنچتے پہنچتے تقریبا ایک ارب نوری سال کا وقت لگے گا۔ اور اس روشنی کی “اِنٹنسیٹی” اس قدر کم ہوگی کہ اس کو “detect” کرنا بھی مشکل ہوگا۔
ملکی وے لوکل گروپ کلسٹرز میں 600 کلو میٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے رواں دواں ہے۔یہ رفتار کوٸی بھی خلاٸی جہاز نہیں پکڑ سکتا، کیونکہ یہ رفتار ناقابل یقین حد تک زیادہ ہے اس نقطے کے ساتھ ایک ماٸیکرو لیول کا دوسرا dot بھی ہے جو دیکھائی نہیں دے رہا۔
دراصل وہ ہمارا پڑوسی”کہکشاں” ہے۔ اسکی طرف ملکی وے رواں دواں ہے۔ یہ سٹریکچیر کافی سرچ کے بعد بنایا گیا ہے۔یہ Illustrates TNG پروجيکٹ کا حصہ ہے۔ جو کافی “کلکولیشن” کرنے کے بعد بنایا گیا ہے۔ اس “سٹریکچیر” میں ہر ایک کلسٹرز اور سپر کلسٹرز اپنی اپنی جگہ پر موجود ہے۔ اور کلسٹرز اور سپر کلسٹرز میں موجود ہر ایک چیز حرکت میں ہیں۔ لیکن سب سے مزے کی بات یہ ہے کہ اس سٹریکچیر کی اس چھوٹی سی نقطے “dot” میں 67000000000000000000000000000000000000000 “زمینیں” آسانی سے فٹ ہوسکتی ہیں، اور یہ کوٸی مذاق نہیں ہے”۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انسان آللہ کی حدود و قیود سے کبھی بھی نہین نکل سکتا۔ اسی لئے بندے کے لئے بہتری اسی میں ہے کہ رب کو مان کر اسکے آگے سر جھکا دے۔
قرآن میں اللہ نے اسی لئے فرمایا ہے کہ
سورہ الرحمن
یا مَعْشَرَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ اِنِ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ تَنْفُذُوْا مِنْ اَقْطَارِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ فَانْفُذُوْاؕ-لَا تَنْفُذُوْنَ اِلَّا بِسُلْطٰنٍۚ(۳۳)فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ(۳۴)ترجمہ: کنزالعرفان
اے جنوں اور انسانوں کے گروہ! اگر تم سے ہوسکے کہ آسمانوں اور زمین کے کناروں سے نکل جاؤ تو نکل جاؤ،تم جہاں نکل کر جاؤ گے (وہاں ) اسی کی سلطنت ہے۔ توتم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟
تفسیر: صراط الجنان
{یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ: اے جنوں اور انسانوں کے گروہ!} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے جنوں اور انسانوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر تم میری قضاء سے بھاگ سکتے ہو،میری سلطنت اور میرے آسمانوں اور زمین کے کناروں سے نکل سکتے ہو تو ان سے نکل جاؤ اور اپنی جانوں کو میرے عذاب و میری قدرت و طاقت سے بچا لو لیکن تم ا س بات پر قادر ہو ہی نہیں سکتے کیونکہ تم جہاں بھی جاؤ گے وہیں میری سلطنت ہے۔یہ حکم جنوں اور انسانوں کا عجز ظاہر کرنے کے لئے دیا گیا ہے۔تحت الآیۃ: ۳۳، ۵ / ۶۶۴، جلالین،
{فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ: توتم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟} یعنی اے جن اور انسان کےگروہ! اللہ تعالیٰ نے سزا دینے پر قادر ہونے کے باوجود تمہیں تنبیہ کر کے،اپنے عذاب و اپنی قدرت و طاقت سے ڈرا کر، تم پر آسانی فرما کر اور تمہیں معافی سے نواز کر تم پر جو انعامات فرمائے، تم دونوں ان میں سے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔۔