پاکستان کے مایہ ناز کرکٹر محمد یوسف کی تحریر

پاکستان کے مایہ ناز کرکٹر محمد یوسف کی تحریر***

کامیابی کی وجہ @

یہ وہ محلہ ھے جہاں میں پلا بڑھا. بچوں کے ساتھ جرابوں کی بال بنا کر دھوبی گھاٹ پہ کپڑے دھونے والے ڈنڈے کے ساتھ کرکٹ کھیلا کرتا تھا (شاید اس وجہ سے میری بیک لفٹ اونچی تھی).
پہلی بار کرکٹ کلب میں داخلہ اس شرط پہ ملا کہ میں سب سے پہلے آ کر وکٹ اور گراؤنڈ میں جھاڑو لگایا کروں گا اسکے علاوہ سینئر پلیئرز کےلیئے نیٹ نصب کرانے کی ذمےداری بھی میری تھی۔
یہ جو بھائی اس تصویر میں نظر آ رہے ہیں انکا نام ظہیر ہے یہ وہ شخص ہے جو ھمارے کلب کا کپتان تھا –
ظہیر نے کلب انتظامیہ سے لڑ کر مجھے ٹیم میں کھلانےکی کوشش کی تھی جب کلب انتظامیہ مجھے کھلانے پہ آمادہ نہ ہوئی تو ظہیر نے خود کو ڈراپ کر لیا۔ اور اپنی جگہ مجھے چانس دے دیا یہی نہیں بلکہ ظہیر نے میچ کے لیئے مجھے اپنی کٹ بھی دے دی میں نے اس دن ریلوے کالونی کی درزی کی اس دکان سے چھٹی کر لی تھی جہاں میں کام سیکھنے جایا کرتا تھا۔ میں نے میچ میں ظہیر بھائی کی لاج رکھی اور سنچری اسکور کی اور اس دن کے بعد سے کلب انتظامیہ نے کبھی مجھے میچ سے ڈراپ نہیں کیا، ظہیر کچھ عرصہ پہلے کینسر کے شکار ہوگیا تھا مگر اب الحمدللہ صحت یاب ہوکر واپس آچکا ہے.
ظہیر نے صحت یاب ہونے کے بعد مجھے فون کرکے خوش خبری دی تو میں ظہیر سے ملنے چلا آیا۔ ظہیر کہتا ھے کہ یوسف تو نے میرے علاج پہ لاکھوں روپے خرچ کردئیے میرے بچے بھی تیرے غلام رہیں گے. میں نے صرف اتنا جواب دیا ظہیر بھائی میں آپ جتنا امیر آج تک نہیں بن سکا کیونکہ آپ نے میری مدد اس وقت کی جب آپ کے پاس کچھ نہیں تھا جبکہ میں نے آپ کی مدد اس وقت کی جب میرے پاس سب کچھ تھا ۔
***
(حمید انجم کی وال سے)

Leave a Comment