حویلی سجان سنگھ
بھابڑا بازار راولپنڈی میں ویرانی اور وحشت کا سماں پیدا کرتی یہ حویلی کبھی اپنے مکینوں کا عظیم محل نما گھر تھی جس کہ مکین اسلام آباد اور راولپنڈی میں بہت بڑے علاقے کی ریاست کہ مالک تھے جی ہاں راۓ بہادر سجان سنگھ جہاں آج ہماری اہم ادارے قومی اسمبلی وزیر اعظم ہاٶس سکرٹریٹ گولڑہ اور مری سمیت یہ ریاست راۓ بہادر سجان سنگھ کی ملکیت تھی
اس حویلی کے دو ادوار ہیں۔ 1893ء سے 1947ء تک 54 سال یہ سجان سنگھ خاندان کے زیر استعمال رہی جبکہ دوسرا دور 1947ء سے 1982ء تک کا ہے جب یہ حویلی کشمیر سے آنےوالے مہاجرین کو الاٹ کی گئی اور یہاں 40 سے زائد خاندان مقیم رہے۔
سجان سنگھ کے پاس جو دو بڑی جاگیریں تھیں ان میں ایک کٹاریاں دوسری مصریوٹ تھی سجان سنگھ لکڑی کا کاروبار کرتا تھا اور کشمیر سے قیمتی لکڑی منگوا کر بیچتا تھا سجان سنگھ نے اس وقت نام اور پیسہ کمایا جب اینگلو افغان جنگوں میں وہ ملٹری کنٹریکٹر کے طور پر سامنے آیا اور انگریزی فوج کو اشیائے خوردو نوش جانوروں کے لئے چارہ اور ایندھن کی سپلائی شروع کی جس کے عوض 1888ء میں اسے وائسرائے ہند نے رائے بہادر کا خطاب دیا اور گورنر پنجاب نے سجان سنگھ کی خدمات پر 1873ء میں حسن ابدال میں منعقدہ دربار میں انہیں خلعت سے بھی سرفراز کیا۔
آج بھابڑا بازار کی تنگ گلیوں میں ویرانی پراسراریت کی علامت بنی یہ حویلی وقت کی وحشت کا شکار آخری سانسیں لیتی ہوٸی اپنے مکینوں اور معماروں کو یاد کرتی ہے
1893 میں تیار ہونے والی یہ حویلی جسے سجان سنگھ نے بنوایا اور اس کی تعمیر کہ لیے برصغیر سے نامور معمار بلواۓ دروازوں، چھتوں اور چوباروں پر لکڑی کا انتہائی دیدہ زیب کام ہوا تھا۔ حویلی کا ڈھکا ہوا ایریا 24،000 مربع فٹ ہے۔ حویلی کی تعمیر میں استعمال ہونے والا لوہا اور لوہے کی چادریں اور تانبا برطانیہ سے منگوایا گیا تھا اس حویلی میں 1937 میں بجلی بھی لگا دی گٸ تھی۔
مقیمی بزرگ علاقے کے پرانے لوگ بتاتے ہیں کہ حویلی کی تعمیر میں سونا بھی استعمال ہوا تھا اور دیواروں پر سونے سے کشیدہ کاری کی گئی تھی۔ حویلی کے مکین سونے اور چاندی کے برتن استعمال کرتے تھے اور شاہانہ فرنیچر موجود تھا۔ صحن میں مور ناچتے تھے اور برآمدوں میں شیر بندھا ہوتا تھا۔
یاد رہے اس سے پہلے یہاں حویلی موجود تھی جس میں سجان سنگھ کہ اباٶ اجداد رہتے تھے اسی حویلی کو گرا کر سجان سنگھ نے یہ عالی شان حویلی بنواٸی یاد رہے سجان سنگھ کا سلسلہ ملکھا سنگھ پوریا اور گرونانک سے ملتا ہے ملکھا سنگھ پوریا پوٹھوہار کا پہلا سکھ حکمران تھا رنجیت سنگھ کہ دور میں محکمہ مال کا افسر تھا اس کا باب نند سنگھ یعنی سجان سنگھ کا دادا بھی ایک اہم شخصیت کہ طور جانا جاتا تھا نند سنگھ نے شہر میں کئی فلاحی ادارے کھولے۔ سنگ جانی کی سرائے بھی سجان سنگ کے والد نند سنگھ نے بنوائی تھی۔
یاد رہے سردار سادھو سنگھ بھی اسی خاندان سے تھا جس نے شاہ اللہ دتہ میں سادھو باغ لگایا تھا جو آج بھی موجود ہے اسی دور میں یہاں ہی قریب واقع دربار شاہ چن چراغ موجود ہے اس دور میں چن چراغ کہ ماننے والے اس خاندان کہ علاوہ تمام مزاہب کہ لوگ تھے اُس وقت میں یہاں جین مت کہ پیروکار زیادہ آباد تھے جو کہ ہندو مت اور بدھ مت کی درمیانی مزہب سے تھے
1890 میں اس حویلی کی تعمیر شروع ہوٸی جو 1893 میں مکمل ہوٸی
اس حویلی کے ارد گرد باغات تھے اور جب یہ بنائی گئی تو تب یہ شہر کی اولین عمارت تھی جس میں نانک شاہی اینٹ کا استعمال کیا گیا تھا۔
سجان سنگھ 1901ء میں فوت ہو گیا
اس کہ بعد اس کہ پردیت سنگھ اس کا وارث بنا پھر اس کہ بیٹے موہن اور سوہن سنگھ اور پھر یہ سلسلہ قیام پاکستان تک چلتا رہا
آج بے بسی کی علامت یہ حویلی ویرانی بھوت بنگلہ کا منظر پیش کرتی ہے جو ادارے اور وقت کہ جبر کی داستان سناتی ہے